پاکستان میں جس بچے کے ایف ایس سی میں پوزیشن آتی ہے جب اس سے پوچھا جائے کہ وہ بڑا ہو کر کیا بنے گا تو اس کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ وہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بنے گا اور دکھی انسانیت کی خدمت کرے گا لیکن آج پاکستان کے ڈاکٹروں کے بارے میں کسی سے انکی خدمت کے بارے میں پوچھا جائے تو ایک ہی جواب سننے کو ملتا ہے کہ اگر یہ ڈاکٹر بخشے گئے تو کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا ، جبکہ اگر خدمت اور لگن کا جذبہ ہوتو انسان اپنے عمل سے اس کی مثال قائم کرسکتا ہے اور ایسا ہی کچھ کیا چین کی اپاہج خاتون نے جو صرف 4 سال کی عمر میں دونوں ٹانگوں سے محروم ہوچکی تھی لیکن انہوں نے ہمت نہ ہارتے ہوئے اپنا ڈاکٹر بننے کا خواب پورا کیا اور اب انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار خاتون ڈاکٹر 15 سال سے لکڑی کے چھوٹے اسٹولوں پر سفر کرکے اپنے مریضوں تک پہنچ کر ان کا علاج کرتی ہیں۔
چین کے ایک پسماندہ صوبے کی رہائشی خاتون جب صرف 4 سال کی تھیں تو ٹرک ان کے پیروں پر چڑھ گیا اور اس حادثے میں وہ اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہوگئیں لیکن انہوں نے اپنے ہاتھوں اور چھوٹے اسٹولوں سے آگے بڑھنا سیکھ لیا اور ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اپنے گاؤں آئیں جہاں اب وہ گاؤں کے لوگوں کی خدمت کرتی ہیں۔
لوگ اپنی اس مسیحا کو گھر بلاتے ہیں اور وہ خوشی خوشی ان کے علاج کے لیے جاتی ہیں۔ گزشتہ 15 برس میں وہ اتنا چلی ہیں کہ لکڑی کے 24 اسٹول گھس کر توڑ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ خاتون کے شوہر بھی اکثر انہیں پیٹھ پر سوار کرکے مریضوں تک پہنچاتے ہیں۔ خاتون ڈاکٹر نے اپنی مجبوری کو نظر انداز کرتے ہوئے نہ صرف اپنے گاؤں بلکہ دور دراز اور پہاڑی علاقوں کے بھی 6 ہزار میڈیکل کیسز حل کیے ہیں۔
خاتون ڈاکٹر کا کہنا ہے انہیں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں یہ کام کرنا چاہیے، اگر انہیں اس کے بدلے کوئی عزت نہ بھی ملے تب بھی میں دیہی ڈاکٹر بن کر کام کرتی رہیں گی۔ خاتون کے مطابق ان کا 12 سالہ بچہ بھی ڈاکٹر بننے میں دلچسپی رکھتا ہے اور وہ بھی اپنی ماں کی طرح لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔