عالمی عدالت انصاف سے پابندی کے باوجود ایک سال کے وقفے کے بعد جاپان نے ” منکی وہیل مچھلی ” کے اگلے سال سے شکار کا اعلان کر دیا ہے .حکومتِ جاپان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کا خیال کرے گی اور اس کی جانب سے وہیل کے شکار کا ’سائنسی‘پروگرام بہت محدود ہے۔
تاہم آسٹریلیا اور برطانیہ کی حکومت کے علاوہ ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے گروہ جاپان کے اس فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں۔
آسٹریلیا کے وزیرِ ماحولیات گریگ ہنٹ نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی طریقے سے وہیل کو مارنے کی نام نہاد ریسرچ کو نہیں مانتے۔
دوسری جانب برطانیہ کی وزارتِ دفاع کے بیان میں جاپان کے اس اعلان پر گہری مایوسی کا اعلان کیا گیا ہے۔ جنوبی سنمدر کی جانب بڑھنے کے لیے چندہ ہی ہفتوں میں وہیل کے شکار کے لیے بیڑے ساحل پر ہوں گے۔
نئے منصوبے کے تحت جاپان ہر سال پکڑی جانے والی منکی وہیل کی تعداد کو دو تہائی کم کر کے 333 کرے گا۔
جاپانی حکام نے کہا ہے کہ ان کا منصوبہ سائنسی طور پر موزوں ہے تاہم مخالفین خاص طور پر آسٹریلیوی حکومت اس پر مطمعین نہیں ہے۔
آسٹریلیا کے وزیرِ ماحولیات گریگ ہنٹ کہتے ہیں کہ جاپان انفرادی طور پر یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ اس نے تمام سائنسی سوالات کا مکمل طریقے سے خیال رکھا ہے۔
گذشتہ برس آسٹریلیا نے جاپان کے خلاف نیدر لینڈ میں بین القوامی عدالتِ انصاف میں مقدمہ جیتا تھا۔ اس مقدمے میں عدالت نے کہا تھا کہ جاپان کا وہیل کے شکار کا ’سائنسی‘ پروگرام بالکل بھی سائنسی نہیں ہے اس لیے ٹوکیو اپنے بیڑوں کو واپس بلا لے۔
ہمارے نامہ نگار کے مطابق عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ عدالت کو اس بات پر یقین نہیں کہ جاپان کے لیے وہیل کا مطالعہ کرنے کے لیے اسے مارنا ضروری ہے۔
جاپان نے منکی وہیل کے شکار کا آغاز سنہ 1987ء میں کیا تھا۔
عالمی عدالتِ انصاف کا کہنا ہے کہ جاپان نے حالیہ پروگرام 2005ء میں شروع کیا تھا اور اس وقت سے لے کر اب تک جاپان 3600 منکی وہیل شکار کر چکا ہے۔