واشنگٹن: جاپان ایجادات کے حوالے سے بہت آگے ہے اور یہاں مذہبی عقائد کے معاملے میں سختی کم پائی جاتی ہے۔نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ کی تازہ ترین تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو ممالک مذہبی حوالے سے بہت سخت ہیں وہ ایجادات کے معاملے میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ ”وال سٹریٹ جرنل“ میں جیفری سپارشوٹ نے لکھا ہے کہ رپورٹ میں مذہبی عقائد اور خدا پر یقین رکھنے اور سائنسی ایجادات کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مرتبین رولینڈ بینابو، ڈیوڈ ٹچی اور اینڈریا ونڈگنی کے مطابق بین الاقوامی اور امریکی ریاستوں کے اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ مذہب پرستی اور پیٹنٹس میں سخت تناسب معکوس پایا جاتا ہے۔یہ تناسب معکوس اس وقت واضح ہوتا ہے جب آبادی پر قابو پانے کیلئے پیٹنٹس کی درخواستوں اور اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو مذہبی کہلوانے والی آبادیوں کی پیٹنٹس میں تفاوت سامنے آتا ہے ۔ رولینڈ بینابونے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس رپورٹ کی تیاری کیلئے خام گھریلو مصنوعات، اعلیٰ تعلیم کی شرح، آبادی اور دیگر عوامل کو سامنے رکھا گیا ہے لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ صرف سخت مذہبی ممالک ہی غریب ہوتے ہیں یا ان کے وسائل کم ہوتے ہیں، ہم یہ حتمی دعویٰ نہیں کر رہے کہ کون سے عوامل کس خاص نتیجے کا باعث بن رہے ہیں، ہم نے اعدوشمار پیش کر دیئے ہیں جن کی روشنی میں لوگ نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔رپورٹ میں مذہبی اور سائنسی ادوار کے بارے میں بھی چھان بین کی گئی ہے جو مذہبی سزاﺅں کے بعد وجود میں آئے، مغربی یورپی ماڈل کا بھی مطالعہ کیا گیا جس نے بلاروک ٹوک سائنسی ترقی کی اور چرچ کا کردار کم ہونے سے لے کر مذہبی حکومت تک کے ادوار کا بھی مطالعہ کیا گیا جس میں سیاسی اشرافیہ اور مذہبی قیادت کا اتحاد ہوتا ہے جو سائنسی ایجادات میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔دونوں ہی اقسام کی حکومتوں میں ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہوتی ہے تاہم ان کے خرچ کرنے کی سمتیں مختلف ہوتی ہیں۔اس کے درمیان امریکی ماڈل ہے جس میں سائنسی ترقی کی راہ میں عام طور پر کوئی رکاوٹ نہیں،مذہبی عقائد بھی مستحکم ہیں، چرچ بھی موافق ہے اور ٹیکس بھی کم ہیں لیکن اس کے باوجود اس میں سخت مذہبی امیر اور غریب دونوں اپنے طبقات سے بالاتر ہو کر اپنے عقائد کے مخالف نظریات کو روکنے کیلئے سیاسی اتحاد بنا لیتے ہیں۔