فرانزک سائنسدان پروفیسر جان ہیلمک (اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک ) کا کہنا ہے کسی واردات کے بعد جائے وقوعہ پر کیے جانے والے ایک سادہ ٹیسٹ کے ذریعے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ حاصل ہونے والے فنگر پرنٹس کسی مرد کے یا پھر عورت کے ہیں تاہم نتائج کو قابلِ بھروسہ بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر نمونے درکار ہوں گے۔
جان ہیلمک کے مطابق ایک نئی تحقیقی رپورٹ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ فنگر پرنٹس میں موجود انسان کے امائینو ایسڈ کے ذریعے جنس کا تعین کیا جاسکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت کے پسینے میں امائینو ایسڈ کی مقدار دوگنا ہ ذیادہ ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ فنگرپرنٹس کو گزشتہ ایک صدی سے کسی واقعے کی تصویر کے طور پر مانا جاتاہے لیکن اب فنگر پرنٹس کے ذریعے جنس کا تعین بھی کیا جاسکتا ہے۔
امریکی سائنسدان کے دیگر ماہر ساتھیوں کا کہنا ہے کہ دروازے کے ہینڈل، شفاف میز اور کمپیوٹر اسکرین وغیرہ پر بننے والے فنگر پرنٹس سے جنس سے متعلق معلوم کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ ماہرین کے مطابق فنگر پرنٹس کے ذریعے جنس کے تعین کی شرط یہ ہے کہ فنگرپرنٹس کی تعداد زیادہ ہو اور وہ بظاہر بہت شفاف اور ہموار جگہ پر پائے گئے ہوں۔