محمکہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں کے مطابق انھوں نے چینیوٹ سے تعلق رکھنے والے محمد ثقلین کو اس وقت گرفتار کیا جب انھیں محکمے کی انٹیلیجنس رپورٹ سے معلوم ہوا کہ ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر بظاہر نفرت انگیز مواد پوسٹ کیا جا رہا ہے۔ اہلکاروں نے بتایا کہ محمد ثقلین کا تعلق فقۂ جعفریہ سے ہے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے ایس ایس پی عطا الرحمان کے مطابق محمد ثقلین کوگذشتہ ماہ گرفتار کیا گیا اور محکمے نے ان پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کی شق 980-A اور 11-W کے تحت فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔ محکمے کے مطابق ان پر توہین رسالت کے خلاف قوانین کی شق 298-A کی خلاف ورزی کرنے کا بھی الزام ہے۔ ایس ایس پی عطا الرحمان کے مطابق مقدمے کے مدعی خود محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکار تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جرم ثابت ہونے کے بعد انھیں انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج نے قید کی سزا سنائی اور ان پر ڈھائی لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیم بائٹس فار آل کے ترجمان فرحان حسین نے کہا کہ وہ محمد ثقلین کے کیس کی تفصیلات کی تصدیق نہیں کر سکتے لیکن بظاہر یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جس میں کسی کو فیس بک پر فرقہ وارانہ مواد پوسٹ کرنے پر سزا ملی ہے۔
انھوں نے سوال اٹھایا کہ سکیورٹی اداروں کی جانب سے یہ لوگوں کی ذاتی زندگی پر بے وجہ نگرانی کرنے کا عمل ہے اور معاشرے میں اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔
فرحان حسین کا کہنا تھا ’بظاہر یہ معاملہ آن لائن مواد سے تعلق رکھتا تھا نہ کہ کسی تخریبی کارروائی سے تو پھر ثقلین کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کیوں پیش کیا گیا؟‘
انھوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے تحت کے جانے والے بہت سے اقدامات میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے تاکہ قوانین کا غلط استعمال نہ کیا جا سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’سائبر وار فیئر، سائبر کرائم اور سائبر ٹیررزم میں فرق اور وضاحت کی ضرورت ہے، ہر جرم دہشت گردی کا عمل نہیں سمجھا جا سکتا۔اس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات بڑھ سکتے ہیں۔‘
دوسری جانب ایس ایس پی عطا الرحمان نے کہا ’دہشت گردی اور فرقہ وارانہ فساد کو فروغ دینے میں سوشل میڈیا بہت بڑا کردار ادا کر رہا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے محکمہ بڑی سطح پر کریک ڈاؤن کر رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے کئی لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ بقول ان کے سوشل میڈیا پر بہت سی کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کے نیٹ ورک اور گروہ بھی کام کر رہے ہیں۔
’سوشل میڈیا پر انتشار پھیلانے والے مواد کی روک تھام محکمہ انسداد دہشت گردی کے دائرے میں آتی ہے۔‘
واضح رہے کہ چند روز قبل فیصل آباد کی نسداد دہشت گردی کی عدالت نے ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھنے والے ذیشان شوکت کو فیس بک پر فرقہ وارانہ مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں پانچ سال قید سنائی تھی۔
ان کے خلاف مذہبی تنظیم اہل سنت والجماعت نے مقدمہ درج کرایا تھا۔
اسی طرح کے ایک اور مقدمے میں اہل سنت والجماعت کے سابق صدر مفتی تنویر کو گذشتہ اکتوبر میں چھ مہینے قید کی سزا سنائی گئی تھی۔