بول ٹیلی ویژن کے سابق پریذیڈنٹ کامران خان اور سی ای او اظہر عباس‘ سینئر وائس پریذیڈنٹ نصرت جاوید‘ اینکر عاصمہ شیرازی اور ان کے ساتھ دیگر صحافیوں نے بظاہر پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے اس اعلان کے بعد استعفیٰ دیا کہ وہ جعلی ڈگریاں بنانے کے الزام میں ملوث بول ٹیلی ویژن کی مدر کمپنی ایگزیکٹ کے خلاف تحقیقات کیلئے انٹرپول اور ایف بی آئی سے مدد حاصل کریں گے تاہم بول ٹیلی ویژن اور مذکورہ افراد کے انتہائی قریبی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اظہر عباس‘ افتخار احمد اور کامران خان نے نہ صرف یہ کہ استعفیٰ دینے کا پہلے سے ہی فیصلہ کرلیا تھا بلکہ اپنے سابق ادارے جیو میں واپسی کیلئے گفتگو کا آغاز بھی کردیا تھا۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ان افراد اور جیو کے مالک میر شکیل الرحمان کے درمیان گزشتہ کئی روز سے مذاکرات جاری ہیں اور ان افراد کے درمیان پیر یا منگل کو اہم ملاقات متوقع ہے جس میں ان کی حتمی واپسی کا فیصلہ ہوگا ۔
ادھر جیو ٹیلی ویژن کے انتہائی ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ کامران خان‘ افتخار احمد اور اظہر عباس کی جیو واپسی کی اطلاعات جیو ٹیلی ویژن کے اندر ہر سطح پر پھیل چکی ہیں اور پہلے سے موجود جیو کے بیشتر ارکان ان کی واپسی کے شدید مخالف ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ٹیلی ویژن کی صنعت میں آج جس بحران کا بھی سامنا ہے اس کے ذمہ دار یہ تمام افراد ہیں۔ ان افراد نے جیو ٹیلی ویژن کو ایسے موقع پر چھوڑا جب وہ طوفانوں میں گھرا ہوا تھا اور جیو کو ان افراد کی ضرورت تھی۔ جیو ٹیلی ویژن کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی واپسی سے جیو میں ایک نیا بحران آئے گا اور سینئر افراد میں بددلی پھیلے گی۔ جیو کے ذمہ دار ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جیو اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی سے پہلے جیو ماہانہ 75 سے 85 کروڑ روپے کا کاروبار کرتا تھا جو گھٹ کر 25 سے 30 کروڑ روپے رہ گیا تھا اور اس وقت یہ افراد جیو ٹیلی ویژن میں ہی موجود تھے۔ آج جبکہ جیو ٹیلی ویژن کے خلاف ریاستی تشدد بھی کسی پیمانے پر باقی ہے اور یہ بڑے نام بھی اس کے ساتھ موجود نہیں ہیں اس کے باوجود جیو ٹیلی ویژن اپنی محنت اور کوشش سے 55 سے 60 کروڑ روپے ماہانہ کے کاروبار کو چھو رہا ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ چند افراد کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا خواہ ان کا کتنا ہی بڑا نام ہو۔
جیو ٹیلی ویژن کے ذمہ دار ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اظہر عباس اور کامران خان بول ٹیلی ویژن کے حقیقی سکرپٹ رائٹر ہیں اور انہوں نے ہی ایگزیکٹ کے مالکان کو نیا ٹیلی ویژن شروع کرنے پر اکسایا جس کا ثبوت ایگزیکٹ کے چیئرمین شعیب احمد شیخ کی ایک ویڈیو تقریر میں بھی ملتا ہے۔ اس تقریر میں انہوں نے بتایا تھا کہ ایگزیکٹ نے جب بول شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کی پہلی میٹنگ میں اظہر عباس اور کامران خان شامل تھے۔ اسی کے ساتھ جیو ٹیلی ویژن کے معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کامران خان اور اظہر عباس بڑی بڑی رقموں کی پیشکش کرکے جیو کے مختلف سیکشنوں میں کام کرنے والے کارکنوں کو بول ٹیلی ویژن لے گئے جن کی تعداد 1500 سے زائد ہے۔ آج یہ انہیں چھوڑ کر وہاں سے فرار ہو رہے ہیں تو دوسری جانب وہ کارکن جن کی تنخواہیں ان کے گھر چلانے میں کام آتی تھیں ان کا پورا مستقبل داﺅ پر لگ چکا ہے اور یہ بڑے صحافی بول ٹیلی ویژن سے بھی کم از کم 20,20 کروڑ روپے نقد اور دیگر مراعات و سہولیات لے کر اب اخلاقیات‘ قانون اور مذہب کے حوالے دے کر وہاں سے فرار ہو رہے ہیں اور دوبارہ اسی ادارے سے رجوع کر رہے ہیں جس کے بارے میں گزشتہ دنوں وہ بڑے پیمانے پر ہرزہ سرائی کرتے رہے ہیں۔ ذمہ دار ذرائع نے بتایا ہے کہ بول ٹیلی ویژن اظہر عباس کو 57سے 60 لاکھ روپے ماہانہ ٹیکس فری ادا کرتا تھا جبکہ گاڑی، فون، ہاﺅس رینٹ اور دیگر مراعات اس کے علاوہ ہیں۔۔ دوسری جانب جیو ٹیلی ویژن کے ایک انتہائی ذمہ دار عہدیدار نے بتایا کہ خود انہیں اظہر عباس نے 50 لاکھ ماہانہ کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ وہ چھ مہینے بول میں کام کریں‘ چھ مہینے بیرونی دنیا میں گھومیں، صرف جیو کو چھوڑ دیں۔ اسی افسر نے بتایا کہ افتخار احمد جو جیو آنے کیلئے بے قرار ہیں ایگزیکٹ کا جعلی ڈگریوں کا سکینڈل آنے سے چند روز پہلے تک نجی محفلوں میں یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ وہ میر شکیل الرحمان کو نہیں چھوڑیں گے اور بول ٹیلی ویژن آنے کے بعد اپنے پہلے پروگرام میں سب سے پہلے میر شکیل الرحمان کی بدعنوانیوں کی پردہ کشائی کریں گے۔
ادھر ایک اور انتہائی اہم ذریعے نے بتایا ہے کہ امریکہ میں بھی جلد ہی ایگزیکٹ کمپنی کے خلاف ریاستی سطح پر تحقیقات کا آغاز ہونے والاہے اور بہت جلد کانگریس کی اسکینڈل کی جانب توجہ دلائی جائے گی اور پھر تحقیقات کا اعلان کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی وزارت داخلہ نے ایف بی آئی سے مدد لینے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستانی حکام کو بخوبی علم ہے کہ بہت جلد امریکہ میں ایف بی آئی ہی ایگزٹ کمپنی کے خلاف تحقیقات کا آغاز کرے گی۔
دریں اثناءجیو کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ جیو میں موجود سینئر عہدیدار میر شکیل الرحمان سے پوچھ رہے ہیں ان افراد کی واپسی کے بعد ان کو دوبارہ ان کی پوزیشنوں پر بحال کرنا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ کامران خان کی جگہ شاہ زیب خانزادہ پروگرام کر رہے ہیں۔ کیا شاہ زیب خانزادہ کو ان کی جگہ سے ہٹا کر کامران خان کو دوبارہ پروگرام دینا مناسب ہوگا؟ اور ایسی صورت میں شاہ زیب خانزادہ کو کس طرح رضامند کیا جائے گا اور کہاں اکاموڈیٹ کیا جائے گا؟
اسی طرح افتخار احمد جنگ اور جیو کا الیکشن سیل چلایا کرتے تھے، ان کی جگہ اب سہیل وڑائچ یہ کام کرتے ہیں۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ کسی بھگوڑے کو دوبارہ واپس لاکر اس شخص سے عہدہ واپس لیا جائے جس نے مشکل وقت میں نہ صرف ادارے کا ساتھ دیا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ کسی فرد کے جانے سے ادارے کی کارکردگی پر کوئی زیادہ اثر نہیں پڑتا۔ ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ ان افراد کی واپسی سے ادارے کو فائدہ کم، نقصان زیادہ ہوگا اور ادارے میں موجود بے چینی میں اضافہ ہوگا۔
ادھر ذمہ دار ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ایگزیکٹ جعلی ڈگری سکینڈل کے بعد بول ٹیلی ویژن کے مستقبل پر لگے سوالیہ نشانات نے دوسرے میڈیا مالکان کے حوصلے بلند کردیئے ہیں اور وہ صحافی ورکروں کے دباﺅ سے نکلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ بعض اداروں میں بول جانے سے روکنے کیلئے صحافی کارکنوں کے عرصہ دراز سے رکے ہوئے انکریمنٹ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا جو اب واپس لے لیا گیا ہے۔
ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ بول ٹیلی ویژن نے صحافی کارکنوں کو نئے حوصلے دیئے تھے جو اب ٹوٹ چکے ہیں۔ جو ایک بار پھر میڈیا مالکان کے ہاتھوں یرغمال بننے پر مجبور ہیں۔