دنیا کے گرد چکر لگانے کے لیے کوشاں سولر امپلس نامی بغیر ایندھن کے چلنے والے طیارے نے امریکی ریاست اوکلاہما سے اوہائیو کا اپنا سفر مکمل کر لیا ہے۔
یہ اس طیارے کے سفر کا بارہواں مرحلہ تھا جس کے دوران اس کا کنٹرول سوئس ہوا باز آندرے بورش برگ کے ہاتھوں میں تھا۔
شمشی توانائي سے چلنے والا یہ جہاز تلسا ایئر پورٹ سے چل کر اوہائیو کے ڈیٹن ایئر پورٹ پر مقامی وقت کے مطابق رات کے نو بج کر 56 منٹ پر اترا۔
1100 سو کلو میٹر کا سفر اس جہاز نے 16 گھنٹے میں طے کیا۔
اس طیارے کے دوسرے ہوا باز برٹرینڈ پیکارڈ ہیں، جنھوں نے کچھ روز قبل ہوائی سے سان فرانسسکو تک طیارہ اڑایا تھا۔ یہ دونوں ہوا باز اس ایک شخص کی گنجائش والے طیارے کو باری باری چلاتے ہیں۔
پیکارڈ اور بورش برگ جون کے مہینے میں نیویارک پہنچنے کی کوشش کریں گے، جس کے بعد بحرِ اوقیانوس کو عبور کرنے کی تیاریاں شروع ہو جائیں گی۔
دنیا کے گرد چکّر لگانے کے سفر کے تحت آخر میں اس جہاز کو ابوظہبی پہنچنا ہے جہاں سے گذشتہ مارچ میں اس نے اپنی پہلی پرواز شروع کی تھی۔
کم رفتار، ہلکے وزن اور 72 میٹر لمبے پروں کی وجہ سے یہ طیارہ صرف مخصوص موسمی حالات میں سفر کر سکتا ہے۔
شمسی توانائی حاصل کرنے کے لیے اس کے پروں پر 17 ہزار سولر سیلز نصب ہیں اور توانائی ذخیرہ کرنے کے لیے لیتھیئم بیٹریاں نصب ہیں جن کی مدد سے یہ رات کو بھی سفر کر سکتا ہے۔
سولر امپلس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ مستقبل میں ایسے طیارے اڑائے جائیں۔ اس کی بجائے اس کی مدد سے حالیہ تکنیکی صلاحیت، خاص طور پر شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی کی طرف لوگوں کی توجہ مرکوز کرنا ہے۔
اس کی ٹیم کا نعرہ ہے: ’مستقل صاف و شفاف ہے۔‘
سولر امپلس متحدہ عرب امارات کی ریاست ابو ظہبی سے اڑکر عمان، انڈیا اور میانمار عبور کرتا ہوا چین پہنچا تھا۔ اس نے وہاں سے جاپان اور پھر جاپان سے ہوائی تک کا 8924 کلومیٹر کا سفر پانچ دنوں اور پانچ راتوں میں کیا تھا جو کسی بھی طیارے کے طویل ترین سفر کا ریکارڈ ہے۔