سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ابلے ہوئے انڈے کو دوبارہ بغیر ابلی شکل میں واپس لانے والی مشین جس نے 2015ء کا اِگ نوبیل انعام جیتا تھا کا بہت اہم طبعی استعمال ممکن ہے۔
خیال رہے کہ ’اِگ نوبل‘ انعام ان غیر معمولی ایجادات اور دریافتوں کو دیا جاتا ہے جن پہ لوگ ابتدا میں ہنستے ہیں، لیکن بعد میں ان کی اہمیت ہمیں اپنی سوچ بدلنے پر مجبور کردیتی ہے۔
جنوبی آسٹریلیا کی فِلنڈرز یونیورسٹی کے کیمیا دان پروفیسر کولن راسٹن نے ورٹکس فلوئیڈک ڈیوائس (وی ایف ڈی) بنائی ہے۔ یہ مشین عام آنکھ سے نظر نہ آنے والے انتہائی چھوٹی کاربن نینو ٹیوبس (سی این ٹیز) کو بے مثال درستگی کے ساتھ ایک ہی لمبائی میں کاٹ سکتی ہے۔
انفرادی سی این ٹیز قطر میں چند نینو میٹرز یا ایک چھوٹے وائرس جتنی ہوتی ہیں۔ یہ ناقابل یقین خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں۔ یہ فولاد سے 200 گنا زیادہ مضبوط ہونے کے باوجود لچکدار ہوتی ہیں اور ان میں سے تانبے کی تاروں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ بجلی کی لہریں گزر سکتی ہیں۔
کینسر (سرطان) کے علاج میں استعمال ہونے والی ادویات کو جسم کے مخصوص حصوں تک پہنچانے کے لیے سائنسدانوں کو ایسے مواد پر دسترس حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا تھا جو مسلسل نینوٹیوبز کو ایک ہی لمبائی میں کاٹ سکے۔
پروفیسر راسٹن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب آپ عام طریقے سے سی این ٹیز بناتے ہیں تو وہ آپس میں الجھی ہوئی ہوتی ہیں، اطالوی کھانے اسپگیٹی کی مانند۔ یہ آپس میں الجھی ہوئی اور ان کی لمبائی بھی مختلف ہوتی ہیں۔‘
ان کی لمبائی کم کرنے کے لیے زہریلے کیمیکل کی ضرورت ہوتی ہے جو سی این ٹیز کی سطح میں کیمیائی طور پر تبدیلی لے آتا ہے اور ان کی افادیت پر اثراندز ہوتا ہے۔
پروفیسر راسٹن کی وی ایف ڈی ایک تیزی سے گھومنے والی گلاس ٹیوب میں سیال کو آمیزے میں تبدیل کرتی ہے۔ یہ سی این ٹیز کو کاٹنے کے لیے زیادہ تیز رفتار، بہترین، اور صاف طریقہ ہے جس کے دوران بجلی کی لہروں کو بھی داخل کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر راسٹن کہتے ہیں ’ہماری مشین کاربن نینو ٹیوبز کا الجھاؤ ختم کرتی ہے اور انھیں لمبائی میں کاٹتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان کی مشین سے کٹنے والی سی این میز جسامت میں اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ جسم کے اندر دوا پہنچانے کا کام کرسکتی ہیں اور ساتھ ہی شمسی خلیات کی کارکردگی بہتر بناتی ہیں۔
پروفیسر راسٹن اور ان کے ساتھیوں نے ابلے ہوئے انڈے کو ایک بار پھر بغیر ابلی شکل میں واپس لا کے پروٹین (لحمیات) کے سلجھنے کا مظاہرہ کیا تھا۔ ان کی اس دریافت پہ انھیں 2015ء کا اِگ نوبل انعام دیا گیا ہے۔