قدیم رومن شہر ہرکُولینیئم سے پائے جانے والے کاغذ کے پلندے 79ویں صدی عیسوی میں اٹلی کے آتش فشاں وسوویئس کے پھٹنے سے زیر زمین دب گئے تھے۔
ماضی میں کئی صدیوں تک انھیں پڑھنے کی کوشش کے دوران چند پلندے تباہ بھی ہوگئے تھے۔
تاہم بچ جانے والے کاغذی پلندوں کو پڑھنے کے لیے سائنس دان فرانس کے شہر گوہنابلا میں قائم یوروپیئن سنکروٹرون کی ٹیکنالوجی پر انحصار کر رہے ہیں۔ اس میں استعمال کی جانے والی ایکس رے شعاعیں عام طور پر ہسپتالوں میں استعمال ہونے والی ایکس رے شعاعوں سے 100 ارب درجے زیادہ روشن ہوتی ہیں۔
گذشتہ سال طبعیات دانوں نے پلندے پر لکھی تحریر پڑھنے کے لیے تھری ڈی ایکس رے امیجنگ کی تکنیک کا استعمال کیا تھا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پیپائرس (قدیم زمانوں میں استعمال ہونے والے نباتاتی کاغذ کی قسم) میں سیسے کی کافی مقدار پائی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاہی میں پایا جانے والا سیسہ جان بوجھ کر استعمال کیا گیا تھا۔
گوہنابلا کے یوروپیئن سنکروٹرون کے ڈاکٹر ایمینوئل برن کہتے ہیں: ’ہمیں سیاہی میں سیسہ ملا ہے، جس کا استعمال چار صدیوں بعد شروع ہونا تھا۔
’عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سیاہی میں دھات کا استعمال چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے شروع کیا تھا۔‘
حالیہ دریافت سے قبل سمجھا جاتا رہا ہے کہ مذکورہ مسودوں میں استعمال کی جانے والی سیاہی کاربن پر مشتمل تھی۔
سائنسی جریدے دا پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہونے والی تحقیق سے سنکروٹرون کی روشنی کی مدد سے ان قدیم کاغذی پلندوں پر مزید تحقیق میں مدد ملے گی۔
ڈاکٹر برن کہتے ہیں: ’یہ دریافت ہمارے لیے نہ صرف تاریخی پہلووں سے دلچسپ ہے بلکہ پیپائرس پلندے کی تصویر کشی کے حوالے سے بھی دلچسپ ہے۔
’سیاہی پر کی جانے والی مذکورہ تحقیق کے مختلف مراحل پیپائرس پر موجود نظر نہ آنے والی تحریر کو پڑھنے کی غرض سے کیے جانے والے اگلے تجربے میں مددگار ثابت ہوں گے۔‘
آتش فشاں پہاڑ وسوویئس کے پھٹنے سے سمندر کے کنارے واقع شہر ہرکُولینیئم اپنے پڑوسی شہر پومپئی سمیت جل کر خاکستر ہوگیا تھا۔
اٹھارویں صدی عیسوی میں کھدائی کر کے ہرکُولینیئم کے ایک کتب خانے سے دو ہزار کاغذی پلندے برآمد کیے گئے تھے جن میں سے چھ سو تاحال کھولے نہیں گئے ہیں۔
زیادہ تر میں یونانی زبان میں فلسفے پر مشتمل تحریر درج ہیں تاہم چند پر لاطینی زبان میں مزاح بھی موجود ہے۔
تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے قدیم ادب اور یونانی ادب کے پروفیسر ڈرک اوبنک کہتے ہیں ’یہ حیران کن دریافت ہے۔ اب تک مجھے ان میں سے کسی بھی کاغذی پلندے کو بغیر نقصان پہنچائے اندر سے پڑھنے کی امید نہیں تھی، تاہم اب میں ایسا کر سکتا ہوں۔‘