بھارت کے گلابی شہر جے پور نے آوارہ کتوں کی دہشت نجات حاصل کرنے کا انوکھا طریقہ اپنایا ہے اور بہت حد تک انھیں کامیابی نظر آ رہی ہے۔
جے پور میں جانوروں کے متعلق ایک تنظیم آوارہ کتوں کو مارنے کے بجائے ان کی نس بندی اور ویکسینیشن کر رہی ہے۔
جانوروں کی بہبود کی تنظیم ’ہیلپ ان سفرنگ‘ نے 21 برس پہلے اس مہم کو شروع کیا تھا اور اس کے بہت مثبت نتائج آئے ہیں۔
انگلینڈ سے آکر جے پورکے ادارے میں فعال کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر جیک ریس نے بتایا کہ سنہ 1994 میں عالمی ادارہ صحت نے یہ تسلیم کیا تھا کہ کتوں کو مارنا ریبیز کنٹرول یا ’ڈاگ بائٹ’ یعنی کتوں کے کاٹنے پر کنٹرول کا حل نہیں ہے۔
ڈاکٹر ریس کہتے ہیں: ’کتوں کے کاٹنے کے واقعات کے پس پشت ’میٹرنل بیہیویئر‘ یعنی مادرانہ سلوک زیادہ کارفرما ہوتا ہے۔ لہذا اس مہم میں مادہ کتوں کی نسبندی پر خصوصی توجہ دی گئی۔‘
مہم کی کامیابی میں بہتر نگرانی، سائنسی سوچ اور ریکارڈ رکھنے جیسے عوامل کارفرما رہے۔
ڈاکٹر ریس نے بتایا کہ ’سنہ 1994 سے 2015 کے درمیان 59،485 کتوں کی نس بندی کی گئی جس میں تقریبا 70 فی صد مادہ نسبندياں شامل تھیں۔ یعنی اوسطا روزانہ آٹھ کتوں کی نس بندی کی گئی۔‘
حالیہ سروے کے مطابق جے پور شہر کے قریب 77.93 فیصد کتوں کی ریبیز مخالف ویکسینیشن اور 88.9 فیصد مادہ کتوں کی نس بندی کی جا چکی ہے۔
ادارے کی منیجنگ ٹرسٹی ٹمی کمار نے بی بی سی کو بتایا: ’ہمارا زور اس بات پر ہے کہ جانوروں کو دکھ نہ پہنچے اور انسان بھی محفوظ رہیں۔ ان کے مطابق شہر میں نہ صرف آوارہ کتوں کی تعداد میں زبردست کمی آئی ہے، بلکہ ریبیز کے مریضوں کی تعداد بھی 95 فی صد تک کم ہوئی ہے۔‘
اس پروگرام کے لیے ادارے کو مرکزی جانوروں کے بہبود کے بورڈ سے چند سال سے باقاعدہ اقتصادی تعاون حاصل ہے۔
ٹمی کمار کہتی ہیں: ’اگر ریاستی حکومت سے بھی اس سمت میں مدد ملے تو بہت اچھا رہے گا۔ کچھ لوگ کتوں کی نس بندی پر سوال اٹھاتے ہیں۔ میرے خیال سے ایسا کرنا حادثات کی روک تھام کے لیے بھی ضروری ہے، کیونکہ اکثر گاڑیوں کے سامنے آوارہ کتوں کے آ جانے سے حادثات ہو جاتے ہیں۔‘
جے پور شہر کارپوریشن میں ملازم ڈاکٹر ہیریندر نے بی بی سی کو بتایا: ’کارپوریشن سپریم کورٹ کی ہدایات کے تحت اس بات کا یقین کرتا ہے کہ آوارہ کتوں کی نس بندی اور ویکسینیشن کے بعد انھیں ان کے ہی علاقے میں واپس چھوڑ دیا جائے۔‘
آوارا کتوں کی تعداد پر کنٹرول کے لیے ہیلپ ان سفرنگ ملک کی دیگر ریاستوں اور اداروں کو بھی ٹریننگ دیتی ہے۔ وہ آنے والے دنوں میں جموں اور گوا میں اپنے تجربے سے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔