یہ ” مال ویئر” ہے کیا ؟ جس کے ذریعے ملک کے اندر سیاسی مخالفین بلکہ بھارت میں خفیہ معلومات اکٹھی کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے انٹرنیٹ کی دنیا میں سائبر حملے روکنے کے لیے سرگرم ایک امریکی کمپنی فائر آئی کا کہنا ہے کہ انھیں تحقیقات کے دوران معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں ایک گروپ 2013ء سے نہ صرف ملک کے اندر سیاسی مخالفین بلکہ بھارت میں خفیہ معلومات اکٹھی کرنے کے لیے ’مال ویئر‘ استعمال کر رہا ہے۔
فائر آئی کے سنگاپور میں تعینات کمیونیکیشن مینجر پیٹرک نیہارن نے بی بی سی اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس شخص کی جاسوسی کرنی ہوتی ہے اسے ایک ای میل کے ذریعے مال ویئر (نقصان دہ سافٹ ویئر) منسلک کر کے بھیجا جاتا ہے۔
’ای میلز میں استعمال کی جانے والے تھیمز اور دستاویزات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ سائبر حملہ آور بھارت کی حکومت اور فوجی اہلکاروں کے علاوہ ملک کے اندر سیاسی مخالفین کو ہدف بنانا چاہتے تھے تاکہ ان کے بارے میں خفیہ معلومات اکٹھی کر سکیں۔‘
حملہ آوروں کی جانب سے خواتین کی تصاویر، پاکستانی اخبارات، ڈان یا ایکسپریس نیوز کے مضامین کی اٹیچمنٹ کے طور پر ای میل میں روانہ کی جاتی ہیں۔ اٹیچمنٹ پر کلک کرنے سے یہ مال ویئر کمپیوٹر پر انسٹال ہو جاتا ہے۔
پیٹرک نیہارن کا کہنا تھا کہ جب یہ سافٹ ویئر انسٹال ہو جائے تو ہیکروں کی اس کمپوٹر سسٹم تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے۔
یہ مال ویئر بنیادی طور پر پھر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اس کے پلگ انز بڑے موثر ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ سکرین دیکھ سکتے ہیں، کی سٹروک ریکارڈ کر سکتے ہیں اور کمپیوٹر چلا سکتے ہیں، دراصل وہ اس کمپوٹر کے ساتھ جو چاہیں، کر سکتے ہیں۔‘
اس کپمنی کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ کمانڈ اور کنٹرول کے لیے پاکستانی انفراسٹرکچر کا استعمال، پاکستان میں علیحدگی پسندوں، بھارتی عسکری شخصیات اور پاکستان کے معروف نیوز اداروں کے ٹائٹل کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ اس کی سرپرستی کوئی پاکستانی کر رہا ہے۔
پیٹرک نیہارن سے دریافت کیا کہ ان کے یقین کی وجہ کیا ہے تو ان کا جواب تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان سے ہو رہا ہے، لیکن ہمیں مکمل یقین نہیں ہے۔ اگر آپ اس تمام کارروائی پر مجموعی نظر دوڑائیں، تو بظاہر یہی لگتا ہے۔‘
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ آیا یہ ریاستی سطح پر ہو رہا ہے یا نجی تو ان کا جواب تھا کہ ’ہم اس بارے میں قیاس نہیں کرنا چاہتے لیکن اگر آپ اس طرح کی دنیا میں کوششوں پر نگاہ دوڑائیں تو ریاست اور سائبر مجرم علیحدہ اور مل کر دونوں طرح سے کام کرتے ہیں۔ لیکن اس واقعے میں عمومی طور پر لگتا ہے کہ وہ خفیہ معلومات اکٹھی کرنا چاہ رہے ہیں اور یہ ایجنڈا خفیہ اداروں ہی سے تعلق رکھتا ہے۔‘
اس کمپنی نے ماضی میں بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان اس قسم کی سائبر جنگ دریافت کی ہے۔
پیٹرک نیہارن کا کہنا تھا کہ انھوں نے بھارت کی جانب سے تاہم ابھی کوئی سائبر کارروائی نہیں دیکھی لیکن دنیا میں 50 ممالک کے پاس سائبر حملہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
کیا اس حملے کو روکنے کی کوئی صورت ہے؟
پیٹرک نیہارن کا کہنا تھا کہ ایشیا میں عموعمی طور پر کمپنیاں اس قسم کے حملوں کی زد میں رہتی ہیں۔ ’وہ کمپنیوں کی فائر وال توڑ سکتے ہیں۔‘
پاکستان میں سرکاری سطح پر اس رپورٹ پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
اس سے قبل حکومتی سطح پر انٹرنیٹ پر جاسوسی کے لیے استعمال ہونے والے ’فن فشر‘ نامی جاسوسی کے نظام کی خریداری اور استعمال کے بارے میں بھی پاکستان خاموش رہا ہے۔