ماہرینِ حیاتیات نے کم از کم ڈیڑھ کروڑ برس سے ’ایمبر‘ یعنی کہریا کے ٹکڑوں میں پھنسے دو پھولوں کے فوسلز کی مدد سے ایک ناپید ہو جانے والے پودے کی نئی قسم کا سراغ لگایا ہے۔
امریکی ماہرینِ حیاتیات نے اس پودے کا نام مردہ درختوں کے فوسل کی شکل اختیار کرنے والی گوند کے یونانی نام ’الیکٹرون‘ پر سٹریکنین الیکٹرائی رکھا ہے۔
سٹریچنوس الیکٹرائی پودے کی نسل سے تعلق رکھنے والی مرطوب علاقوں کی جھاڑیاں، درخت اور بیلیں سٹریکنین نامی نامیاتی زہر پیدا کرنے کے لیے مشہور ہیں۔
یہ تحقیق سائنسی جریدے ’دی جرنل نیچر پلانٹس‘ میں شائع ہوئی ہے۔
فوسل کی شکل میں موجود یہ دو پھول امریکی اوریگن سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر جارج پوئینر کے سنہ 1986 میں کیے جانے والے تحقیقی دورے کے دوران جمع کیے جانے والے 500 فوسلز میں شامل تھے۔
یہ پھول حیرت انگیز طور پر اپنی مکمل شکل میں تھے جبکہ عموماً کہریا میں پودوں کے فوسلز کے ذرات ہی پائے جاتے ہیں۔
سنہ 2015 میں پروفیسر جارج پوئینر نے ان پھولوں کی ہائی ریزولیشن تصاویر رُٹگرز یونیورسٹی کی پروفیسر لینا سٹرووی کو بھیجی تھیں۔
پروفیسر سٹرووی نے دونوں پھولوں کے ظاہری خدوخال کا سٹریچنوس پھولوں کی دریافت شدہ 200 اقسام سے موازنہ کرنے کے لیے کئی عجائب خانوں اور نباتات کے مختلف ذخیروں کا تفصیل سے جائزہ لیا۔
پروفیسر سٹرووی کہتی ہیں ’سٹریچنوس کی خصوضیات کو جانچنے کے لیے پھولوں کی شکلیں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور خوش قسمتی سے ان پھولوں کے فوسل میں ہمیں یہ میسر ہے۔
’میں نے نیو ورلڈ (امریکہ کی دریافت کا زمانہ) کے پودوں کی ہر نوع کا گہرائی سے جائزہ لیا اور جارج کی بھیجی ہوئی تصاویر سے موازنہ کیا۔‘
پروفیسر پوئینر کہتے ہیں ’ہر پودے کی اپنی نامیاتی اساس ہوتی ہے جس کے اثرات مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ پودے دوسرے پودوں کے مقابلے میں زیادہ زہریلے ہوتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ پودے اپنے زہر کے باعث نباتات خوروں سے محفوظ رہے۔‘
تاہم یہ پودے ’ایسٹیرِڈ‘ برادری کا بھی حصہ ہیں جن میں 80 ہزار پھولوں والے پودے شامل ہیں جن میں سے کئی اقسام انسان کھاتے بھی ہیں۔ مثال کے طور پر آلو، پودینہ، سورج مکھی کے پھول اور کافی کے بیج۔
نئی دریافت اس نوع کے پودے کے خاندان کے فوسلز ریکارڈ کے لیے ایک اہم اضافہ ہے جس کی اہمیت کو بہت کم سمجھا جاتا ہے۔