آج دنیا کے پچیس ممالک میں سات سو پچاس ڈاکٹر خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کرنے والے تین ہزار سے زائد مردوں کی نس بندی کر رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مردوں کے آپریشن مفت کیے جائیں گے جبکہ دیگر کا آپریشن نہایت ہی رعایتی نرخوں پر کیا جائے گا۔
عالمی سطح پر ہونے والے اس ایونٹ کے شریک بانی جوناتھن اسٹیک کا کہنا تھا، ’’خاندانی منصوبہ بندی کے معاملے میں ہم مردوں کو ذمہ داری اٹھانے میں مدد فراہم کر رہے ہیں، مرد اپنی شریک حیات کے ہیرو بن سکتے ہیں، اپنے خاندانوں کے ہیرو بن سکتے ہیں اور ہمارے مستقبل کے بھی۔‘‘
رواں برس نس بندی کا ہیڈ کوارٹر انڈونیشیا کے جزیرے بالی پر واقع ایک ٹیمپل کو قرار دیا گیا ہے۔ اس موقع پر وہاں نس بندی کے لیے موجود پہلے چھ مردوں کو عوام کے سامنے پیش کیا گیا اور بعدازاں ان کے موبائل ہیلتھ کلینکس میں آپریشن کیے گئے۔ اسی طرح کے کئی آپریشن بھارت، امریکا اور اسپین میں بھی کیے گئے۔
اس ایونٹ کے منتظمیں کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ہر دس میں سے چار خواتین نہ چاہتے ہوئے بھی حاملہ ہو جاتی ہیں اور اس کے بعد زیادہ تر بوجھ صرف اکیلی خاتون کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ مردوں کی نس بندی کے حوالے سے مہم چلانے والی اس تنظیم کے مطابق اس کے باوجود کہ نس بندی کا طریقہ انتہائی محفوظ ہے اور اس سے مردوں کی جنسی صلاحیت پر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا، بہت زیادہ ممالک میں مردوں کی نس بندی کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
یاد رہے کہ انڈونیشیا کا معتبر اسلامی ادارہ چند برس پہلے نس بندی کے عمل کو اسلامی قوانین کے خلاف اور ’حرام‘ قرار دے چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں نس بندی کروانے کے عمل میں واضح کمی ہوئی ہے۔ آج نس بندی کا تیسرا ’عالمی دن‘ منایا جا رہا ہے جبکہ اس کا آغاز آسٹریلیا سے سن 2013 میں کیا گیا تھا۔