شوق دا کوئی مُل نہیں یہ وہ جملہ ہے جو ہر اس جگہ سننے کو ملتا ہے جہاں بھی کسی نے کچھ نیا کیا ہوتا ہے ایسا ہی آج کر یورپ میں دیکھنے میں آ رہا ہے.سوئیڈن کے ٹیٹو آرٹسٹ ہووان اوئیسٹرلیون نے جرمنی میں ہونے والے سائبورگ میلے میں اپنےفن کا مظاہرہ کیا اور ان کے مطابق یہ عمل بالکل محفوظ اوراس میں تکلیف بھی کم ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اپنے جسم میں الیکٹرانک چپس اوراسی طرح کی اشیا لگوارہے ہیں۔ بدن کے اندرروشنیاں لگوانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کیونکہ لوگ اپنے جسم پر بنوائے گئے نقش و نگار اور ٹیٹو کو روشن بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ رات میں بھی ان کے ٹیٹو نظر آسکیں۔ اسی لیے پہلی کوشش میں سرخ روشنیوں والی 5 ایل ای ڈیز بدن کے اندر لگائی گئی ہے اور جب ان کے سامنے مقناطیسی میدان بنایا جاتا ہے تو وہ 10 سیکنڈ کے لیے روشن ہوجاتی ہیں۔
اس طرح اندر لگی بیٹری سے ایل ای ڈیز10 ہزار مرتبہ روشن ہوسکتی ہیں اور اس کے بعد بیٹری کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اگلے برس یہ لائٹس بازار میں فروخت کے لیے پیش کی جاسکیں گی۔ اس کے بعد لائٹوں کو بلیوٹوتھ سے چارج کرنے کی سہولت بھی پیش کی جائے گی۔ مستقبل میں انسانی جسم میں نصب آلات کے ذریعے صرف ہاتھ کے اشارے سے ٹی وی آن کرنا اور گھروں کی لائٹس آف کرنا ممکن ہوگا۔