موسم سرما میں شدید سردیوں سے بچنے کے لیے یہ شاہی تتلیاں کینیڈا سے امریکہ ہوتے ہوئے میکسیکو کی طرف نقل مکانی کر جاتی ہیں اور وہاں کے جنگلوں میں رہتی ہیں۔
حالیہ برسوں میں کیڑے مار ادویات کے چھڑکاؤ اور غیر قانونی طریقے سے بڑي تعداد میں درختوں کے کٹنے کے سبب ان نایاب تتلیوں کی تعداد میں تقریباً 90 فیصد کمی دیکھی گئی۔
گذشتہ برس فروری میں امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو نے ان کے تحفظ کے لیے مشترکہ طور پر بہت سے خصوصی اقدامات کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے تحت ان نادر تتلیوں کے نقل مکانی کے راستے اور ان کی عادت سمیت کئی پہلوں پر توجہ دینا شامل تھا۔
جمعرات کو میکسیکو کے حکام نے کہا کہ اس کوشش کے تقریباً ایک برس بعد ہی اس کے مثبت نتائج سامنے آنے کی توقع ہے۔
میکسیکو میں ماحولیات کے وزیر ہیرڈا پچینو نے امریکی وزیر داخلہ سیلی جوئیل کے ساتھ ایک مشترکہ کانفرنس میں کہا کہ ’ان اقدامات کا اثر ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ اس بار میکسیکو کے مرکز میں واقع پہاڑي جنگلوں کے ایک بڑے حصے پر یہ شاہی تتلیاں قابض ہوں گی۔
پہاڑی جنگل، جہاں سینکڑوں کی تعداد میں یہ تتلیاں پہلے ہی سے محوِ رقص ہیں یا پھر پتوں پر بیٹھی آرام کر رہی ہیں، کا دورہ کرنے سے عین قبل انھوں نے کہا کہ گذشتہ سیزن کے مقابلے اس بار یہ تقریباً چار گنا زیادہ آئیں گی۔
اس موقعے پر امریکی وزیر داخلہ سیلی جوئیل نے کہا کہ کینیڈا اور امریکہ کے جس راستے سے یہ گزرتی ہیں اس راستے کو کیڑے مار دواؤں سے پاک رکھنے کی تمام کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’میکسیکو، کینیڈا اور امریکہ میں ایسے بہت سے حشرات پائے جاتے ہیں جو ہماری سیاسی سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتے اور وہ سرحدوں کو آزادی سے عبور کرتے رہتے ہیں۔‘
یہ تتلیوں تقریباً 4000 کلومیٹر کا سفر طے کر کے کینیڈا سے امریکہ ہوتے ہوئے میکسیکو کے مخصوص علاقوں تک پہنچتی ہیں۔