بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی تاریخ اور روایات کے تحفظ اور نئی نسل کو اس کے بارے میں بتانے کے لیے سرینگر میونسپل کارپوریشن نے شہر کی دیواروں کو آرٹ گیلری میں بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سلسلے میں دیواروں پر تصاویر کے ذریعے کشمیری ثقافت کی تشہیر کی جائے گی۔
تاہم کچھ حلقوں کے خیال میں انتظامیہ ان تصاویر کے ذریعے ان بھارت مخالف پیغامات اور نعروں کو چھپانا چاہتی ہے جو شہر کی دیواروں پر جا بجا نظر آتے ہیں۔
اے سی ایم سي کے کمشنر تفضل مٹو کا کہنا ہے کہ ’منشا اپنی بھلا دی گئی ثقافت کو پینٹ کرنے کی ہے۔ یہ ایک بڑا منصوبہ ہے اور جس پورے سری نگر میں کئی جگہوں پر میورل بنائے جائیں گے۔‘
اس کام کے لیے کشمیر کے جانے مانے فنکار اور مصور مسعود حسین کی مدد لی گئی ہے جن کی قیادت میں نوجوان مصوروں کی ٹیم یہ میورلز بنا رہی ہے۔
مسعود کہتے ہیں کہ کشمیر کی ثقافت کو دیواروں پر دکھا کر راستوں کو خوبصورت بنانے کا خیال ہے۔ انھوں نے اس کے لیے سرینگر انسٹی ٹیوٹ آف میوزک اینڈ فائن آرٹس کے سات طلباء کو چنا ہے۔
اس منصوبے کی شروعات ایئرپورٹ روڈ میں حیدرپورہ فلائی اوور کی دیواروں سے کی گئی ہے۔ وادی کو آنے والے ہر سیاح کو اس سڑک سے گزرنا ہوتا ہے۔

مسعود حسین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ صرف اس علاقے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ وہ دریائے جہلم کے کناروں اور شہر کے تجارتی مرکز کے اندر اور آس پاس بھی پینٹنگز بنائیں گے۔
دیواروں پر بنائی جانے والی پینٹنگز شہر کی خوبصورتی میں اضافہ تو کر رہی ہیں لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اے سی ایم سي کا منصوبہ شہر کی دیواروں پر لکھی عبارتوں کو مٹانے کی کوشش ہے۔
گذشتہ چند سالوں سے سری نگر کے کچھ حصوں میں دیواروں پر نعرے لکھے نظر آنے لگے ہیں جن میں اکثر بھارت مخالف اور آزادی نواز پیغام ہوتے ہیں۔

سری نگر کی دیواروں پر ایسے نعرے لکھنے والے ایک مصور نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ دیواروں پر مصوری صرف کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوشش ہے۔
انھوں نے کہا: ’ہم دیواروں پر جو لکھتے ہیں وہ تلخ حقیقت ہے اور حکومت نہیں چاہتی سیاح وہ دیکھیں۔ دیواروں پر خوبصورت تصاویر بنا کر وہ کڑوے سچ کو چھپانا چاہتے ہیں۔‘
سرینگر کے ہی ایک اور ایسے مصور کے مطابق بھارت کے جمہوری ملک ہونے کے دعوے کی تب ہوا نکل جاتی ہے جب وہ سچائی کی آواز کو دیواروں سے مٹا دیتا ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’وہ ہر طریقے سے ہماری سیاسی آزادی چھین رہے ہیں۔ چاہے یہ سیاسی ریلیوں کو روکنا ہو یا پھر دیواروں پر لکھے نعروں کو مٹانا، بھارت مخالفت کو قطعی برداشت نہیں کر پاتا۔‘
کشمیر یونیورسٹی کے شعبۂ قانون کے پروفیسر اور مؤرخ ڈاکٹر شیخ شوکت کہتے ہیں کہ شہر کی دیواروں پر پینٹنگ کرنا ایک ایسا مسلسل عمل ہے جو بالآخر ناکام ہو جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں، ’آج وہ دیواروں پر پینٹنگ کر سکتے ہیں لیکن کل کو ان کے اوپر کچھ لکھ دیا جائے گا جو بنیادی طور پر نوجوانوں اور عوام کی بھارت مخالف اور آزادی کے حامی جذبات ہوں گے۔