امریکی خلائی ایجنسی کی ماون سٹیلائٹ پر کام کرنے والے تحقیق کاروں نے اپنے نتائج کے پہلے مرحلے کی معلومات کو تحقیقی صفحات کی صورت میں شائع کردیا ہے۔
ان تحقیقاتی صفحات میں بتایاگیا ہے کہ سورج کے ساتھ باہمی عمل کے نتیجے میں مریخ کی ہوا زیادہ اونچائی پر جا کر ختم ہو رہی ہے۔
انھوں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ مریخ پرموجود گیسیں کس رفتار سے باہر جا رہی ہیں اور یہ رفتار ماضی میں بہت زیادہ رہی ہوگی۔
ناسا کے خلائی جہاز ماون کے پرنسپل تحقیق کار بروس جکوسکی نے بتایا کہ ’ ہم بہت تیزی سے اپنے سوالوں کا جواب حاصل کرنے کی طرف جا رہے ہیں، ہمیں توقع نہیں تھی کہ اس مرحلے پر ہی ہم اتنی معلومات اکھٹی کرلیں گے۔
بروس نے بتایا کہ ’ہم جو معلومات شائع کررہے ہیں وہ صرف ہمارے ابتدائی چھ سے سات ماہ کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ ہم ابھی بھی اس معلومات کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمیں مزید ایک اور مشن کی منظوری مل چکی ہے جس کے تحت ہم یہ دیکھ سکیں گے کہ مریخ پر پورے سال کے دوران مختلف موسم اس نظام پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔‘
اس سے قبل مریخ پر جانےوالی تمام سٹیلائٹ اور مریخ تک پہنچنے والے مشنوں کے مشاہدے سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اس سرخ سیارے کے گرد کبھی گیسوں کی ایک موٹی چادر تھی، جس سے یہ اندازہ لگانے میں مدد ملی کہ مریخ کی سطح پر پانی موجود ہے۔
سٹیلائٹ سے حاصل کی گئی تصاویر سے بھی سیارے کی سطح پر ایسے خدو خال واضح ہوتے ہیں جن کی شکل دریاؤں ، ندیوں اور جھیلوں سے ملتی ہے۔
لیکن اس وقت مریخ پر ہوا کا دباؤ زمین کے دباؤ سے ایک فیصد کم ہے جس کا مطلب ہے کہ وہاں موجود پانی یا تو بخارات کی شکل میں اڑ جاتا ہے یا پھر بالکل جم جاتا ہے۔
ممکن ہے کہ سیارے کی فضا میں تبدیلی کی کچھ وجہ اس کی ہوا کاسطح پر موجود نمکیات کے ساتھ ردعمل بھی ہو۔
لیکن گذشتہ سال شروع کی جانے والی تحقیق کے مطابق مریخ کی فضا میں تغیر کی سب سے ممکنہ وجہ سورج ہے، جس نے مریخ کو ایک گرم اور مرطوب سے ایک سرد اور خشک سیارے میں تبدیل کردیا ہے۔
مریخ کے گرد چکر لگانے دوران سٹیلائٹ اس کے مزید نزدیک گیا اور سطح سے 200 کلو میٹر کے اندر جاکر وہاں موجود گیسوں کے نمونے حاصل کیے جس سے اندازہ لگایا گیا کہ سورج کی شعاعوں کے ساتھ وہ کیسا ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔
سورج مستقل بڑی تعداد میں متحرک ذرات خارج کرتا رہتا ہے جن کو شمسی ہوا کہا جاتاہے۔ یہ ہوا ا پنے اندر مقناطیسی خصوصیات رکھتی ہے اور جب یہ سیارے سے ٹکراتی ہے تو برقی قوت پیدا کرتی ہیں۔ یہ قوت سیارے کی فضا میں موجود ایٹمی ذرات کو متحرک کردیتی ہے، جس کے نتیجے میں یا تو وہ ایٹمی ذرات سیدھے خلا میں واپس چلے جاتے ہیں یا پھر فضا میں موجود دوسرے عوامل کے ساتھ مل کر ختم ہوجاتے ہیں۔
Image
مریخ پر موجود ان زرات کے معدوم ہونے کا تناسب گو کہ ایک وقت میں اتنا زیادہ نہیں لیکن اگر ان کو سیارے کی ساڑھے چار ارب سال پرانی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
ماون پر کام کرنے والے یونیورسٹی آف آیووا کے ڈاکٹر جیسپر ہالیکاز نے وضاحت کی کہ ’ہم نے معلوم کیا ہے کہ ہر سیکنڈ پر تقریباً 100 گرام یعنی ایک پاؤنڈ کے چوتھائی حصے کے قریب فضا سے گیسیں ختم ہو رہی اور بد قسمتی سے وہ گیسیں آکسیجن اور کاربن ڈائی آوکسائڈ ہیں جو سیارے پر پانی اور اس کے مجموعی موسم کے لیے ضروری ہیں۔‘
خلائی جہاز ماون کی ٹیم نے رواں برس مارچ میں مریخ پر سی ایم ای کے اثرات کا بھی مشاہدہ کیا۔
سی ایم ای سورج سے نکلنے والی گیسوں کا ایک متحرک گولہ ہے جس کی رفتار شمسی ہواؤں سے بھی زیادہ تیز ہے اور جو اپنے اندر بے پناہ توانائی رکھتا ہے۔ اور جب یہ گولہ مریخ کی فضا میں شامل ہوا تو ماون کی ٹیم نے دیکھا کہ گیسوں کے اخراج کی رفتار 10 سے 20 گنا بڑھ گئی تھی۔
ڈاکٹر ہالیکاس نے بتایا کہ ’نظام شمسی کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ کائنات کی ابتدا میں شمسی طوفان عام اور طاقت ور تھے، اس لیے ہم توقع کرسکتے ہیں کہ اس وقت سے مسلسل گیسوں کا اخراج ہوتا رہا ہوگا جس کی وجہ سے سیارے کی فضا ختم ہوتی رہی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے مریخ کی فضا آج سے نہیں بلکہ ابتدا سے ہی تغیر کا شکار ہے۔‘
اگر مریخ پر مقناطیسی کشش بحال ہوگئی ہوتی تو ممکن ہے کہ وہ سورج سے ہونے والی اس تباہی کو روکنے کے قابل ہوجاتا۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ سیارے کے اندر موجود برقی یا مقناطیسی قوت پیدا کرنے کا نظام سیارے کے وجود میں آنے کے محض چند ہزار سال بعد ہی تباہ ہوگیا تھا۔
خوش قسمتی سے زمین کی مقناطیسی قوت پیدا کرنے کا نظام قائم ہے جو سیارے کی فضا کا دفاع کرتا ہے۔ ورنہ ہمارا موسمی نظام بھی مریخ کی طرح تبدیل ہوچکا ہوتا۔