جنوبی امریکی ملک چلی کی پولیس نے کم خوراکی کے شکار ایک ایسے دو سالہ شیر خوار کو زندہ حالت میں اپنی نگہداشت میں لیا ہے، جسے ایک حاملہ کتیا نے اپنا دودھ پلا کر بچایا ہے۔
پولیس کے مطابق چلی کے ایک صحرائی علاقے میں ایک ماں نشے کی حالت میں اپنے بھوکے پیاسے بچے کو تن تنہا چھوڑ کر چلی گئی جہاں پولیس کو یہ لاغر برہنہ بچہ اُس وقت دکھائی دیا جب اس محلے کی ایک حاملہ کتیا اُسے اپنا دودھ پلا رہی تھی۔
اس بچے کو چلی کے دارالحکومت سانتیاگو سے قریب ڈیڑھ ہزار میل شمال کی طرف واقع ایک ہسپتال کے مقامی ڈاکٹر خوان نوئی تک لے جایا گیا۔ یہ بچہ جِلد کی انفیکشن کا شکار ہے اور اُسے جوئیں بھی پڑی ہوئی ہیں۔ حکام کا خیال ہے کہ شدید بھوک یا غذائیت کی کمی کے شکار اس بچے کی جان ایک غریب اور پسماندہ علاقے کے ایک مکینک ورکشاپ میں ’رائنا کوئین‘‘ نامی کتیا کے دودھ پلانے کی وجہ سے بچی ہے۔
چلی کی پولیس کے ایک اہلکار گائیاردو نے خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اس بچے کو ضروری طبی امداد فراہم کرنے کے بعد ہسپتال سے عارضی طور پر بچوں کی نگہداشت کی مقامی اتھارٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے تاہم اُس کی ماں کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔ پولیس اہلکار کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کو کسی قسم کا زخم نہیں لگا ہے تاہم اُس کے قحط زدہ ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔
بعد ازاں اس بچے کا باپ ہسپتال پہنچا تاہم بچے کی حالت زار میں باپ کا کردار واضح نہیں ہے اور نہ ہی یہ پتہ چل سکا ہے کہ جس وقت اس بچے کو کتیا کے پاس دودھ پیتے دیکھا گیا، اُس وقت اس کے ماں باپ کہاں تھے۔
چلی کے نوعمربچوں کی دیکھ بھال کے ادارے ’چلی نیشنل سروس فار مائنرز‘ کے مارسیلا لابرانا نے اس واقعے کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُنہیں چلی میں ایک بچے کی طرف سے غفلت اور بے حسی برتنے پر سخت خفت اور خجالت محسوس ہو رہی ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے، جہاں ہزاروں افراد نہایت کسمپرسی کی حالت میں بہت زیادہ افراد سے بھری ہوئی کچی بستیوں میں غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مارسیلا لابرانا نے مزید کہا، ’’یہ کہانی ہمارے لیے شدید شرم کا باعث ہے‘‘۔ انہوں نے اس صورتحال کو ’غیر انسانی‘ اور ’قابل مذمت‘ قرار دیا۔
چلی نیشنل سروس فار مائنرز نے اس بچے کے ساتھ ہونے والی غفلت کے خلاف مقدمہ دائر کرا دیا ہے۔ اس سلسلے میں عدالتی کارروائی 22 ستمبر کو متوقع ہے، جس میں یہ فیصلہ بھی کیا جائے گا کہ بچے کی کفالت اور نگہداشت کا حق کسے ملے گا۔