یہ ایک انوکھا پہلو ہے کہ پولیس مجرموں کے بجائے گایوں کے چہرے کی تصاویر کا مطالبہ کر رہی ہے۔
تاہم بھارت کی گنجان آباد ریاست مہاراشٹر کے شہر مالیگاؤں میں پولیس گائے کے گوشت پر پابندی کے نفاذ کے لیے یہی کر رہی ہے۔
ایک پولیس اہلکار نے ایک بھارتی اخبار کو بتایا ’ہم یہ تصاویر صرف تصدیق کے مقصد کے لیے جمع کر رہے ہیں۔ اگر کوئی الزام عائد کرتا ہے کہ کوئی غیرقانونی سرگرمی ہو رہی ہے اور اس کے مالک کے پاس اس کی تصویر موجود ہو تو سچائی ثابت کرنے میں آسانی ہوگی۔‘
مجھے یقین نہیں کہ یہ ٹھیک ہے۔ آپ گوشت کے ایک ٹکڑے کو گائے کی تصویر کے ساتھ کیسے ملا سکتے ہیں؟
تاہم، حقیقی طور پر، اس قانون کا نفاذ ایک مشکل کام ہے۔ آپ کو مجرم قصائیوں کو گائے کی لاشوں کے ساتھ پکڑنا ہوگا، حقیقنی معنوں میں ’رنگے ہاتھوں‘ تاکہ جرم ثابت کیا جا سکے۔
کیونکہ ڈی اے ٹیسٹ کے بغیر گائے اور بھینس کے گوشت میں تفریق کرنا خاصا مشکل ہے۔
بدقسمتی سے بھارت میں بھینسوں کو خدا کے اتنے قریب نہیں سمجھا جاتا کہ انھیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ بھینس کے گوشت پر پابندی کل 29 ریاستوں میں سے صرف ایک پر عائد ہے۔
یہاں معاشی معاملہ بھی ہے۔
گائے کا گوشت مرغی اور مچھلی کے مقابلے میں سستا ہے اور بہت سارے مسلمانوں، قبائلیوں اور دلتوں کے لیے اہم غذا بھی ہے۔ یہ ایک بہت پھیلی ہوئی صنعت ہے اور اس کے ساتھ لاکھوں لوگوں کا روزگار منسلک ہے۔
بھارت میں گائے کے گوشت پر پابندی کا مسئلہ ایک نازک معاملے یعنی مذہب کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
بھارت کی ارب دو کروڑ پر مشتمل 80 فیصد ہندو آبادی گائے کو مقدس مانتی ہے، جبکہ 18 کروڑ مسلمانوں پر مشتمل ایک بڑی اقلیت کے نزدیک یہ ایک مرغوب غذا ہے۔
بہت سارے مسلمان گائے کے گوشت پر پابندی سیکولرازم کا قتل سمجھتے ہیں جس کی بنیاد پر پر آزاد بھارت کا وجود عمل میں آیا تھا۔
بھارت میں سیکولرازم کا مطلب کچھ مختلف لیا جاتا ہے۔ یہاں ریاست اور مذہب جدا نہیں ہیں بلکہ یہاں اس کا مطلب ریاست کی جانب سے مختلف مذاہب کو برابری کی سطح پرسہارا دیا جانا ہے۔
بھارت کا سیکولرازم تقسیم کے وقت ہجرت کرنے والے مسلمانوں اور ہندوؤں کے لاکھوں کی تعداد میں ہونے والے قتل عام کا ردعمل تھا۔ ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے توجیح پیش کی کہ بھارت میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر رہ جانے والے کروڑوں مسلمانوں کے ساتھ مساوانہ رویہ رکھنا ان کے لیے معقول مراعات ہیں۔
لیکن بھارت میں اب ہندوقوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے، جو بھارت کو ایک ہندو قوم کے طور پر دیکھتی ہے۔
بی جے پی کے سربراہ اور وزیراعظم نریندر مودی نے بارہا مرتبہ سیکولرازم کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کیا ہے تاہم اس کے باوجود اس کی جماعت نے مہاراشٹر میں گائے کے گوشت پر پابندی کی حمایت کی۔
یہی وجہ ہے کہ گائے کے ’مگ شاٹ‘ یا چہرے کی تصاویر کا خیال دلچسپ ہوسکتا ہے تاہم گائے کے گوشت پر پابندی انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔
بھارت کو یہ فخر رہا ہے کہ یہ ایسی قوم ہے جہاں ہندو اور مسلمان بخوشی ایک دوسرے کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ اب ڈر ہے کہ گائے کے گوشت پر پابندی اس عمل کا حصہ ہے جو سمجھوتوں کو کھوکھلا کر رہا ہے جس کے باعث ایسا ممکن ہوا۔