چین کا وہ شہر جسے ’لِٹل مکہ‘ کہا جاتا ہے اور مسلمانوں کو ہر طرح کی آزادی ہے، ایسی تفصیلات کہ مغربی دنیا دنگ رہ گئی
چین کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جو مذہب کو ریاست سے الگ رکھنے کی پالیسی پر سختی سے کاربند ہیں۔ اس ملک کے مغربی صوبے سنکیانگ میں یغور مسلمانوں کے خلاف سخت ترین پابندیاں بھی اکثر خبروں کا موضوع بنتی رہتی ہیں، لیکن آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اسی ملک میں ایک ایسا شہر بھی ہے کہ جہاں مسلمانوں کو ہر طرح کی مذہبی آزادی حاصل ہے اور یہاں ہر طرف اسلامی کلچر اور مساجد کی فراوانی کی وجہ سے اسے ”لٹل مکہ“ کا نام دے دیا گیا ہے۔
جہاں ایک طرف سنکیانگ میں مردوں کے داڑھی رکھنے اور خواتین کے حجاب پہننے پر پابندیوں اور بچوں کے مساجد میں داخلے کو ممنوع قرار دینے جیسی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں وہیں ننگ شیا اور اس کے ملحقہ گانسو صوبے میں منظر بالکل مختلف ہے۔ اس خطے میں چین کی قدیم ”ہوئی“ قوم کے لوگ آباد ہیں جنہوں نے تقریباً 10 صدیاں قبل اسلام قبول کیا۔ اس دور میں عرب خطے سے اس علاقے میں آنے والے مسلمان تاجروں نے مقامی چینی خواتین کو مسلمان کر کے ان سے شادیاں کیں، اور ان کی اولاد ہی آج اس تمام خطے میں موجود مسلمانوں کی صورت میں نظر آتی ہے۔
لنشیا شہر اس مسلم علاقے کا مرکز کہلاتا ہے، جہاں ناصرف مساجد کی کثرت ہے بلکہ سفید ٹوپیاں پہنے ہوئے نوجوان اور حجاب پہنے ہوئے خواتین بھی جا بجا نظر آتے ہیں۔ اس شہر میں مسلمانوں کو کسی قسم کی پابندی کا سامنا نہیں، بلکہ حکومت انہیں ہر طرح کی مدد فراہم کرتی ہے اور مقامی کمیونسٹ پارٹی میں بھی یہاں کے مسلمان شہریوں کی تعداد تقریباً 50 فیصد تک ہے۔
اخبار ”نیویارک ٹائمز“ نے چین کے اس منفرد علاقے پر ایک خصوصی رپورٹ شائع کی ہے، جس پر مغربی دنیا میں سخت حیرت اور بے یقینی کا اظہار کیا جا رہا ہے، کہ چین جیسے لادین ملک میں بھی کوئی مذہبی طبقہ، اور خصوصاً مسلمان، اس قدر آزادانہ اور خوشگوار زندگی گزار سکتا ہے۔ اخبار کے مطابق جب بانکیاﺅ ڈاﺅ تانگ اسلامی سکول میں تعینات چیف امام سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ چین کے دوسرے حصوں اور خصوصاً سنکیانگ سے جب کوئی مسلمان یہاں آتا ہے تو وہ حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ یہاں مسلمانوں کو دستیاب سہولیات، آزادی ، حقوق اور ان کی خوشیوں بھری زندگی دیکھ کر ان میں سے اکثر لوگوں کا واپس جانے کو جی نہیں چاہتا۔
اخبار کے مطابق ہوئی نسل کے افراد سنکیانگ کے لوگوں کی نسبت چینی نسل کے ساتھ زیادہ مماثلت رکھتے ہیں اور ان کی زبان بھی قدم چینیوں کی زبان جیسی ہی ہے، لہٰذا یہ چینی عوام اور خصوصاً کمیونسٹ حکومت کے ساتھ بھی قریبی اور خوشگوار تعلق رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہوئی خطے کے لوگ ایک منفرد مثال ہیں کہ جو آزادانہ طور پر مذہب اسلام کے پیروکار بھی ہیں جبکہ دوسری طرف مذہب کے بارے میں سخت نظریہ رکھنے والی چینی حکومت کے بھی بہت قریب ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ایک مثالی اور خوشگوار تعلق سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔