اس کا آغاز سٹیم سیلز سےکیاگیا جو چوہے کے مسوڑھوں سے حاصل کیےگئے۔سائنسدان کئی تہوں سے جلد کے ساتھ ساتھ بالوں کی غدود اور کھال بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
جب اس کی ایک ’عریاں چوہے‘ میں قوت مدافعت کے ذریعے پیوندکاری کی گئی اور جب یہ عمل مکمل ہوا تو بال اگنا شروع ہوگئے۔
تحقیق کارروں کا کہنا ہے کہ اس کامیاب تجربے کے بعد اسے انسانوں پر آزمانے کے لیے پانچ سے دس سال لگیں گے۔
تاہم تحقیق کرنے والی ٹیم کو امید ہے کہ اس سے جھلس جانے والے افراد کے خلیوں سے فعل جلد کی جانب رہنمائی ہو سکےگی اور اس کی واپس ان متاثرین میں پیوندکاری کی جا سکے گی۔
جرنل سائنس ایڈوانسز کے مطابق اس تحقیق کے نتائج سے اسی شعبے میں کام کرنے والے دیگر سائنسدانوں کو بے حد خوشی ہوئی ہے۔
اس اخبار کے سینئر مصنف تاکاشی سوجی کا کہنا ہے کہ ’مرکزی اعضا کو دوبارہ کام میں لانے کا خواب پر عمل ہونا شروع ہو گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم پیوندکاری کے لیے لیب میں اصل اعضا کی تیاری کے اس خواب کے پہلے سے زیادہ قریب آگئے ہیں۔‘
جان میک گراتھ نے بتایا ہے کہ ’اس نئے نظام کی مدد سے ہم مریضوں کے لیے فعال جلد کی تیاری کے عمل میں بہت آگے آگئے ہیں۔ جبکہ اس قبل کی جانے والی تمام کوششیں ابتدائی مراحل میں ہی ناکام ہو گئی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے قبل ہمارے پاس جلد کے کچھ حصے ہوتے تھے لیکن اب پورے کا پورا ڈبہ ہے ہمارے پاس۔‘
’اس مثال کو فٹبال سے سمجھیئے ہر کوئی وین رونی کو حاصل کر سکتا ہے لیکن اب ہمارے پاس مانچیسٹر یونائیٹڈ کلب ہے۔ میدان پر پوری ٹیم موجود ہے۔‘