ہاتھی دانت کی اسمگلنگ کینیا میں سب سے بڑا کاروبار سمجھا جاتا ہے لیکن اب کینیا کے صدر اُہُورُو کنیاٹا نے افریقہ میں ہاتھیوں کے تحفظ کے لیے اپنے ملک کے عزم کے اظہار کے لیے ہاتھی دانتوں کی ایک بڑی تعداد کو نذرآتش کر دیا ہے۔
دارالحکومت نیروبی کے نیروبی نیشنل پارک میں 100 ٹن سے زائد ہاتھی دانتوں کو آگ لگا دی گئی جو توقع ہے کہ کئی دنوں تک لگی رہے گی۔
یہ ہاتھی دانت کینیا کی جانب سے ضبط کیے گئے تقریباً تمام ذخائر پر مشتمل تھے جو تقریباً 6700 ہاتھیوں سے حاصل کیے گئے تھے۔
کینیا کے اس اقدام کے ساتھ کچھ افراد کی جانب سے اختلاف بھی کیا جارہا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے ہاتھی دانتوں کے لیے غیرقانونی شکار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ہاتھی دانتوں کو نذرآتش کرنے سے قبل صدر اُہُورُو کنیاٹا نے کہا تھا کہ ’ ہاتھی دانت کے ذخائر کو جلانا میرے لیے خوشی کا باعث ہو گا اور یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں ہاتھی دانت کے غیر قانونی شکاریوں اور ان کے ساتھیوں کو اس سے فائدہ اٹھانے سے روک سکوں۔‘
کینیا کی جانب سے یہ اقدام افریقی ممالک کے سربراہان کے ہاتھی دانتوں کی غیرقانونی تجارت سے متعلقہ اجلاس کے بعد اٹھایا گیا ہے۔
ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت سے افریقہ کے ہاتھیوں کا وجود دہائیوں کے اندر ختم ہو سکتا ہے۔
تاہم جنگلی جانوروں کا تحفظ کرنے والے نے کینیا میں ہاتھی دانتوں کے نذرآتش کیے جانے کی مخالفت کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ایک نایاب چیز کو ضائع کرنے سے اس کی قیمت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے اور اس سے غیرقانونی شکار میں کمی کے بجائے اضافہ ہوگا۔
افریقہ ملک بوسٹوانا میں افریقی ہاتھیوں کی تقریباً نصف تعداد موجود ہے۔ اس کی جانب سے ہاتھی دانتوں کو جلائے جانے کی مخالفت کی گئی تھی اور اس کی صدر بھی نیروبی میں منعقدہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
خیال رہے کہ ہاتھی دانت کی مقبولیت کئی ہزار سال پرانی ہے۔ اس کی شفافیت، خوبصورتی اور اس سے چیزوں کی تیاری میں آسانی وہ عوامل ہیں جو اسے اس لمبے عرصے سے مقبول رکھے ہوئے ہیں۔
کینیا میں ایک اندازے کے مطابق 4,50,000 سے 5,00,000 ہاتھی پائے جاتے ہیں لیکن ان میں سے تقربیاً ہر سال 30,000 ہاتھیوں کو ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت کی وجہ سے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔